بنگلہ دیش کے روہنگیا پناہ گزین کیمپوں سے نوجوان لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے سمگل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق غیر ملکی افراد کو میانمار سے آنے والے روہنگیائوں کی یہ نو عمر جوان لڑکیاں بہ آسانی مل جاتی ہیں۔
ایک 14 سالہ لڑکی جس کے اہل خانہ میانمار میں قتل ہو گئے تھے کو بہت سی دیگر خواتین کیساتھ امداد کےبہانے ایک وین میں سوار کرکے نزدیکی شہر کا کس بازار لے جایا گیا۔
لڑکی نے بتایا کہ کہ ‘اس کے بعد وہ دو لڑکے میرے پاس لائے۔ انھوں نے مجھے چاقو دکھائے اور میرے پیٹ میں گھونسے مارے کیونکہ میں ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ پھر دونوں لڑکوں نے میرا ریپ کیا۔ میں سیکس کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن وہ میرے ساتھ کرتے رہے۔’
سمگلنگ کی کہانی پناہ گزین کیمپ میں چاروں جانب بکھری پڑی ہیں۔
خواتین اور بچے ان کے زیادہ شکار ہیں جنھیں لالچ دے کر کیمپ سے باہر لے جایا جاتا ہے اور محنت مزدوری یا پھر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اگست 2017 سے اب تک تقریبا سات لاکھ روہنگیا اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
بچوں کے استحصال کے خلاف بیداری پیدا کرنے والے ادارے فاؤنڈیشن سینٹینل کے ساتھ بی بی سی کی ٹیم نے اس کاروبار کے پس پشت کام کرنے والے نیٹ ورک کے بارے میں تفتیش شروع کی کیونکہ انھوں نے اس بابت بہت سن رکھا تھا۔
بچوں اور ان کے والدین نے بتایا کہ انھیں بیرون ملک اور دارالحکومت ڈھاکہ میں گھریلو ملازمت، ہوٹل اور کچن میں کام کی پیشکش کی گئی۔ کیمپ میں موجود افراتفری بچوں کو جنسی صنعت میں دھکیلنے کے بڑے مواقع فراہم کرتی ہے۔
ایک اور لڑکی نے بتایا کہ انھیں کیسے وہاں پہنچایا گیا۔ اب ایک خیراتی تنظیم ان کی مدد کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا: مجھے معلوم تھا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ جس عورت نے مجھے کام کی پیشکش کی اس کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ جسم فروشی کرواتی ہے۔ وہ روہنگیا ہے جو یہاں ایک عرصے سے مقیم ہے اور سب اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ میرے لیے یہاں کچھ تھا ہی نہیں۔
اس نے بتایا کہ میرے گھر کے افراد غائب ہیں۔ میرے پاس پیسہ نہیں ہے۔ میانمار میں میرا ریپ ہوا تھا۔ میں اپنے بھائي بہنوں کے ساتھ جنگل میں کھیلا کرتی تھی۔ اب مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ کیسے کھیلا جاتا ہے۔
بی بی سی کی ٹیم نے یہ ظاہر کیا کہ وہ بنگلہ دیش میں نئے آئے ہیں اور کیا انھیں بچے مل سکتے ہیں۔
صرف 48 گھنٹے کے اندر ٹیم کو جھونپڑیوں اور ہوٹلوں کے مالکوں سے مقامی دلالوں کے نمبر ملنے لگے جہاں سیکس کے لیے کمرے دیے جاتے تھے۔
ہم نے پولیس کو بتا کر ان دلالوں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس بیرونی ممالک کے ایک شخص کے لیے نوخیز لڑکیاں بطور خاص روہنگیا لڑکیاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔
ایک دلال نے کہا: ‘ہمارے پاس بہت سی نوجوان لڑکیاں ہیں لیکن آپ کو روہنگیا ہی کیوں چاہیے۔ وہ تو بہت گندی ہوتی ہیں۔’
ہماری جانچ کے دوران اس طرح کی باتیں بار بار آئیں۔
کاکس بازار میں جسم فروشی کی صنعت میں روہنگیا لڑکیوں کو سب سے سستا تصور کیا جاتا ہے اور ان کی مانگ بھی سب سے کم ہے۔